عجزِ خاکساری کیوں، فخرِ کجکلاہی کیا
جب Ù…Ø+بتیں Ú©ÛŒ ہیں، پھر کوئی گواہی کیا

ہم رتوں کے مجرم ہیں، پَر ہوا کی نظروں میں
تیری پارسائی کیا، میری بے گناہی کیا

وصل کا کوئی لمØ+ہ رائیگاں نہیں لیکن
جو الگ نہ کرتا ہوں ایسا راستہ ہی کیا

تم تو آنکھ والے تھے، عکس مِل گیا ہو گا
میں سدا کا بے چہرہ، میرا آئینہ ہی کیا

شب گزیدہ لوگوں کو نیند سے الجھنا ہے
رات Ú©ÛŒ مسافت میں رزمِ صبØ+ گاہی کیا

جانے کب بگڑ جائیں، جانے کب سنور جائیں
دستِ کوزہ گر میں ہیں اپنا آسرا ہی کیا

تم سلیمؔ شاعر ہو، شہرتوں پہ مت جاؤ
مسندِ فقیری پہ خبطِ بادشاہی کیا